100

پنجاب کی پگ/تحریر/محمد عثمان کھوکھر

رات کے پچھلے پہر میں سلسلہ وار کالم “دیارحبیب ” لکھ رہا تھا جسے آپ مختلف اخبارات اور ویب سائٹ پر دیکھ اور پڑھ رہے ہیں لکھتے لکھتے مجھے آواز سنائی دی ہلکی ہلکی آواز جیسے کوئی بہت دور سے بول رہا ہو ! جیسے کوئی ترنم میں گا رہا ہے اور میں اس طرف دھیان لگائے سننے کی مسلسل کوشش میں ہوں ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ آواز سماعتوں کے پردوں پر سکون نازل کرتی بادصبح کے مانند ہے
کیا ہے آواز ہے کیا کوئی گا رہا ہے
جیسے چودویں شب کے مہکتے چاند کے سائے تلے سینکڑوں قطار در قطار سفر کرتے اونٹوں کے آگے ہدی خواں گاتا ہو !
تجسس بڑھنے لگا اور پھر اگلے ہی لمحوں میں میری سماعتیں اور بصارتیں کمرے کی دیواروں سے باہر نکلتی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔اپ یوں سمجھ لیں جیسے دیواریں ہی سماعتیں اور بصارتیں ہوں گئی ہوں ہزاروں آنکھیں اور ہزاروں کان
دیکھتے ہی دیکھتے کسی دیو مالائی قوت نے میرے تصور اور تخیل کو یوں تھام لیا جیسے وہ مجسم ہو گئے ہوں اور میں اسکے ساتھ سفر در سفر ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راوی کنارے نیلی بار سے گزرتا جھامرہ کے قبرستان کے سامنے آ کھڑا ہوا ہوں اور میں عجیب منظر دیکھتا ہوں کہ بائیں طرف
لارڈ برکلے اپنی قبر سے باہر نکلے اپنے سر کو ہاتھوں میں لیے دائیں طرف اس سرفروش کو ترانہ گاتے سن رہا ہے
نعرہ اللہ اکبر کی صدا ہو گی بلند
قوت بازو سے ہر دشمن جھکایا جائے گا
کر چکی ہے سرفروشوں کی جماعت فیصلہ
اس گلستان کو لہو دیکر سجایا جائے گا
80 سالہ بوڑھا سر پر پنجابی ورثے کی پگ باندھیں سفید کپڑوں میں ملبوس جب یہ گاتا ہے
گنبد کیخسرواں یا گنبد افراسیاب
اے عزیزان_چمن! دونوں کو ڈھایا جائے گا
کھوپڑی جن بد نہادوں کی معری ہوگئ
ان کا بھیحجا اب کھلے بندوں چبایا جائے گا !
یہ سنتے لارڈ برکلے کھلی قبر میں آؤندے منہ گر پڑا اور اس ثناء میں پگدار بوڑھا مجھے دیکھتے رعب دار آواز میں بولا
تم کون ؟
میں ۔۔۔ ۔میں ۔۔۔ ۔۔۔
میری اس مخفوف حالت کو دیکھ کر پگدار بوڑھا ایک بار پھر خود بول پڑا جانتے ہو میں کون ہوں؟
میری عجیب کیفیت اور متذبذب حالت پر لارڈ برکلے کی قبر سے شیطانی قہقہہ بلند ہوا اور وہ قبر سے ایک بار پھر اٹھ بیٹھ کر کچھ بولنے لگتا
اس سے پہلے ایک گمنام سپاہی جو گر آلود وردی میں ملبوس بوڑھے کی قبر سے زرا دائیں مشرقی طرف کی کھلی قبر میں بیٹھا سارا منظر دیکھ رہا تھا ایک دم سے بول پڑا
تمہیں کیا علم یہ بوڑھا کون ہے ؟
آزاد ملک کے قانون اور آئین شکن لوگو تمہیں کیا علم یہ جس ملک کو تم نوچ نوچ کھائے جا رہے اور جس ملک کے قانون اور آئین کی دھجیاں بکھیرنا تم خود پر فرض کی طرح لاگو کرتے ہو تمہیں کیا علم اس کی بنیادوں میں کتنے حریت پسند جوانوں کے لاشے بطور بنیادی پتھروں کی طرح پڑے ہیں
یہ سامنے بیٹھا لارڈ برکلے اور انگریزی سامراجیت 1857 میں سور اور گائے کی چربی سے بننے والے کارتوس لے آئی ۔۔۔۔۔
حقیقت سامنے آئی اور کچھ بات پھیلی تو ملتان کے راجہ قدرت علی جو ملتان کا نواب اور برٹش آرمی کا کمانڈر تھا اسنے ان کارتوس کو چلانے سے انکار کیا اور اس انکار میں اسکے ساتھ 75 کے قریب سکھ ہندو سپاہی بھی تھے
جنہیں نشان عبرت بنانے کے لیے ملتان قلعہ پر پھانسی لٹکا دیا گیا اس واقعہ پر راجہ نھر سنگھ نے آواز بلند کی اور مشرقی پنجاب سے منگل پانڈے نے مزاحمت دکھائی
ان کی آواز اور مزاحمت کے باعث 25 فروری 1857 کی مرشدہ آباد کی پریڈ میں ہندوستانی سپاہیوں نے کارتوس لینے سے انکار کر دیا
اس انکار پر انگریز سامراج نے فیصلہ کیا تمام یونٹ کو ختم کر ڈالا جائے ۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
اس فیصلے کے عمل درآمد سے پہلے 29 مارچ 1857 کو منگل پانڈے کی ایک انگریز سارجنٹ میجر کو قتل کر ڈالا
اور دوسری طرف راجہ نھر سنگھ کے ہاتھوں ملتان میں 12 انگریز مر گئے ان قتلوں پر انگریز سامراج نے منگل پانڈے اور اسکے ساتھی کو سولی پر لٹکا دیا اور راجہ نھر اور اسکے سپاہیوں کو ذندہ جلا دیا گیا
ان واقعات کے اثر سے 26 اپریل 1857 میرٹھ چھاؤنی میں 90 سپاہیوں میں سے 85 سپاہیوں نے کارتوس چلانے سے انکار کر دیا
جو ایک طرح سے منگل پانڈے اور نھر سنگھ کے ساتھیوں کے ساتھ اظہاری یکجہتی بھی تھی اور مذہبی غیرت بھی
حاکم کب محکوم کے مذہب یا عزت کی پرواہ کرتا ہے بس اس بات پر انکوائری بٹھائی گئی اور فیصلہ کیا گیا انکو نشان عبرت بنا دیا جائے
اور 9 مئی 1857 کو ان سپاہیوں کو میرٹھ چھاؤنی کے میدان میں لایا گیا انکی وردیاں پاڑھ دی گئی انکو گندی گالیاں دی گئی اور انکے ہاتھ پیچھے باندھ کر پریڈ کرنے پر مجبور کیا گیا
اور یہ منظر ہندوستانی سپاہیوں کو دکھایا گیا جو من ہی من خون کے آنسو پیتے رہے
طاقت میں یہی خرابی ہے وہ ہر شے کو دبا دینا چاہتی ہے لیکن اب لاوا پک چکا تھا اور ٹھیک اگلے روز ہی بغاوت ہو گئی
میرٹھ چھاؤنی میں موجود انگریز سپاہی مار دئیے گئے اور لشکر کی صورت میں دہلی کا رخ ہوا تاکہ علامتی بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی قوت بڑھائی جائے
لیکن دہلی پہنچنے سے پہلے ان حریت پسند باغیوں کو پکڑ لیا گیا اور انکو ایک ایک کر کے پھانسی اور گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا
یہ خبر جب لاہور پہنچی تو یہاں کے سپاہیوں نے بھی بغاوت کر دی اور فرار ہو گئے ان تمام سپاہیوں کو راوی پار سے گرفتار کر لیا گیا اور انکو اجنالہ امرتسر جیل میں ڈال دیا گیا ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔
کچھ کو توپوں کے آگے باندھ کر بم چلا دئیے گئے اور کچھ سپاہیوں کو عین عید والے دن 10 دس کی ٹولیوں میں پھانسی دے دی گئی
اور شام تک سینکڑوں حریت پسند موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے جبکہ ساندل بار گوگیرہ کے مضافات میں چھپے حریت پسند باغیوں کو پکڑنے کے لیے
پنجاب کے وڈیروں سرداروں اور گدی نشینوں کے ساتھ رابطے کیے گئے جنہوں نے شاہ کی وفاداری میں اپنے مریدین کے ساتھ مل کر مخبریاں کی اور جہاں زور چلا حریت پسند نوجوانوں کو قتل کر ڈالا ۔۔۔۔۔۔۔
لارڈ برکلے کی طرف دیکھتے گمنام سپاہی نے کہا اس نے دربار لگایا سردار اور پیر بلائے
انھے وفاداری کا سبق اور پیسے کا لالچ دیا اور حکم دیا مجھے باقی بچے چھپے تمام باغی ذندہ یا مردہ حالت میں چاہیے
پھر کیا انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے والے مجاہدین کو ڈھونڈ نکالا گیا اور انھے شہر اور چھاؤنی کے درمیان پل شوالہ پر گھیر کر انگریز سپاہیوں کے ساتھ مل کر گدی نشین
مخدوم شاہ محمود قریشی نے تین سو کے لگ بگ مجاہدین مروا دئیے ۔۔۔۔
اسطرح ہمارے کچھ ساتھی سامراج جسے باغی اور غدار کے نام سے پکارتا تھا وہ دریائے چناب کے کنارے کنارے شہر سے باہر نکلنے کی کوشش میں تھے کہ
انہیں دربار شیر شاہ کے سجادہ نشین مخدوم شاہ علی محمد نے اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیر لیا اور انگریزوں کے ساتھ مل کر ان کے خون سے ہولی کھیلنے لگا کچھ مجاہدین یہ منظر دیکھ دریا میں کود پڑے کچھ دریا کی نذر ہو گئے اور تھوڑے سے دوسرے کنارے جا لگے ۔۔ ۔۔۔
شیطنت کا یہ کھیل یہی پر ختم نہیں ہوتا بدقسمتی سے دوسرے کنارے جا لگے مجاہدین کو پیر سید سلطان احمد قتال بخاری کے سجادہ نشین دیوان آف جلالپور پیر والہ نے اپنے مریدوں کی مدد سے شہید کر دیا۔۔۔۔۔
بچے ماندے مجاہدین بھاگ کر شمال کی طرف حویلی کورنگا میں پناہ گزین ہوئے اور ان نہتے مجاہدین کو پیر مہر شاہ نے اپنے مریدوں اور مقامی سرداروں لنگڑیالوں ہراجوں ، سرگانوں اور ترگڑوں کے ساتھ مل کر شہید کر دیا ۔۔۔۔
پیر مہر شاہ آف حویلی کورنگا سید فخر امام کے پڑدادا کا سگا بھائی تھا۔۔۔۔۔۔
مجاہدین کے قتل عام پر پیر مہر شاہ کو فی مجاہد شہید کرنے پر بیس روپے نقد یا ایک مربع اراضی عطا ہوئی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
بہتی گنگا میں کوئی مذہبی باوا یا سجادہ نشین مرحوم نہیں رہا
مخدوم شاہ محمود قریشی کو 1857 کی جنگ آزادی کے کچلنے اور انگریزوں کا ساتھ دینے پر مبلغ تین ہزار روپے نقدی جاگیر کے علاؤہ سالانہ معاوضہ مبلغ ایک ہزار سات سو اسی روپے اور 8 چاہات بطور معافی دوام عطا ہوئی۔۔۔۔ اور مزید یہ کہ 1860 میں وائسرائے ہندنے بیگی والا باغ بھی عطا کیا۔۔۔۔۔۔۔
۔مخدوم آف شیر شاہ مخدوم شاہ علی محمد کو دریائے چناب کے کنارے مجاہدین کو شہید کرنے کے عوض وسیع جاگیر عطا کی گئی۔۔۔۔
سامراج کے منہ خون لگ چکا تھا ان کے نزدیک پہلے بھی کسی کی عزت اور جان کی کوئی قدر نہ تھی
اور وہ جذبہ حریت کے جذبے کو ہی دلوں سے نکال دینا چاہتے تھے اس سلسلہ کو جاری رکھنے کے لیے ساندل بار کے علاقے گوگیرہ اور مضافات میں چھپے مجاہدین
کو تلاش کرنے اور مار دینے کے لیے انگریز ڈپٹی کمشنر دلفسٹن متحرک ہوا اور اپنے دفتر میں علاقائی سردار اور مذہبی باوے بلائے اور ان سے کہا باغیوں کو کچلنے میں انگریز سرکار کی مدد کرو ۔۔ ۔۔۔۔۔اور اپنے گھوڑے اور جوان دو
اس میٹنگ میں بیٹھے پنجابی ثقافت کی پہچان پگ باندے بوڑھے سردار نے کہا
سرکار ۔۔۔
پنجابی اپنی عورت گھوڑا اور وفاداری کسے کو نہیں دیتے ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
اور ساتھ ہی انگریز سامراج کے ظلم و استبداد سے تنگ آ کر ٹیکس روک دیا !
اس حریت پسند آواز کو دبانے اور علاقے میں جاری بغاوت کو روکنے کے لیے لارڈ برکلے کو گوگیرہ چھاؤنی بھیجا گیا
جس نے سب سے پہلے راوی کنارے آباد وٹو خاندان پر اسلیے چڑھائی کر دی کہ انھوں نے بھی بوڑھے شیر کی پیروی میں لگان اور ٹیکس دینے سے انکار کر دیا تھا
انگریز فوج نے انھے گرفتار کر کے انکے مویشی چھین لیے اور انکے گھروں کو آگ کے شعلوں کے سپرد کر دیا
اور اگلے دن گوگیرہ کے مضافاتی علاقے کے ایک گاؤں لکھو کی میں موجود لوگوں کو مجاہدین کی معاونت پر گرفتار کر لیا اور انھے گوگیرہ کی جیل میں بند کر دیا
بوڑھے سردار نے اپنے ساتھیوں سے مل کر گوگیرہ جیل پر حملہ کر ڈالا اور تمام قیدیوں کو آزاد کر کے اب کھل کر انگریز سامراج کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا
رات جتنی لمبی ہو آخر کار سویرا ہو کر رہتا ہے ، علم بغاوت کا جھنڈا لہرانے لگا اور لوگ جوق در جوق پگ باندے بوڑھے شیر کے ساتھ ملنے لگے
ادھر ادھر چھپے بیٹھے مجاہدین بھی گوگیرہ کی طرف بڑھتے اس بوڑھے شیر سے آملے
اور ان واقعات سے انگریز سامراج ہل گیا اور اسکے کمانڈر میجروں کی نیندیں اڑ گئی
کمال بات موسم بھی گرم جون جولائی کا اور اس میں حریت پسندوں کا ابلتا لہو حملوں پر حملے ہوتے رہے
اور کوئی 1200 کے لگ بگ انگریز سپاہی مار دئیے گئے ۔۔ ۔۔۔۔۔
تحریک بڑھنے لگی بوڑھے شیر نے اپنی غیر معمولی ذہانت سے علاقے کے تمام قبائل کو تحریک میں شامل ہونے کے لیے راضی کر لیا
اور عملی طور پر گوگیرہ پر انگریز سامراج کو ناکام کر دیا اور اپنی حکمت عملی اور منصوبہ بندی سے مکمل خاتمے کے لیے بھاگ دوڑ اور آزادی کے لیے جوانوں کو دعوت دے رہا تھا
ایسے میں ایک کردار سرفراز کھرل جو قبائل کی دعوت میں شامل تھا بھاگم بھاگ رات کے اندھیرے میں لارڈ برکلے کے پاس پہنچا اور تمام روداد اس سے کہہ ڈالی
سورج نکلنے کے ساتھ ہی برکلے نے جھامرہ پر حملہ بول دیا، بوڑھا شیر تو ہاتھ نہ آیا غصے میں برکلے نے گاوں کے بچوں اور عورتوں کو گوگیرہ جیل میں قید کر ڈالا
حریت پسندوں اور انگریزوں کے درمیان ساندل کا علاؤہ میدان جنگ بن گیا جبکہ بوڑھا شیر راوی پار تحریک کے لیے نئے جوان ڈھونڈ اور اپنے ساتھ ملا رہا تھا
انگریز سامراج ساری صورتحال کو دیکھ رہا تھا اور پھر دہلی سے ابتداء کرتے ہوئے بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کر کے میرٹھ سے اٹھنے والی تحریک کو کچل ڈالا اور منظم منصوبہ بندی اور مخبری پر 21 ستمبر کو گشکوری میں موجود “نورے دی ڈال”پر دھاوا بول دیا
حریت پسند بڑی دلیری سے لڑے اور فوج کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا
اسی اثناء میں عصر کا وقت ہو گیا تو بوڑھے شیر نے نماز کے لیے میدان میں کھڑا ہو گیا
اللہ اکبر
الحمد اللہ رب العالمین اپنے رب کی حمد و ثناء میں محو ، ماحول سے بے خبر ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لارڈ برکلے نے موقع غنیمت جانا
اور اپنے سپاہی کو فائر کا آڈر دیا ، سور اور گائے کی چربی سے بنے کارتوس کو منہ سے چھیلتے دھاڑے سنگھ یا رائے بیدی کی گولی اسوقت بوڑھے شیر کو لگی جب اسکا جسم سجدے کی حالت میں اور زبان کہہ رہی تھی”سبحان وبحمدک”
فوج آگے بڑھی سردار کے تن سے اسکا سر کاٹ لیا گاؤں کو ملیا میٹ اور کھیتوں کو جلا ڈالا ۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔
اور گوگیرہ کی جیل کے سامنے نشان عبرت کے لیے اس کا سر لٹکا دیا جسے رات کے وقت اتار کر پھر صبح لٹکا دیا جاتا
گمنام سپاہی یہ کہتے ہوئے بولا اگلے ہی دن برکلے کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا!
بوڑھا پگدار عجب ادا سے جھوم کر ترنم سے گانے لگا
کر چکی ہے سرفروشوں کی جماعت فیصلہ
اس گلستاں کو لہو دیکر سجایا جائے گا !
اس آواز دیوانہ پر لارڈ برکلے ہنسا اور ہنستے ہوئے بولا تم کون ہو تمہیں تو یہ شخص بھی نہیں جانتا
تمہاری حریت حمیت اور آزادی کا فلسفہ کیا ہوا؟ تم جانتے بھی ہو تمہاری ساندل بار اور پنجاب کا کیا حال ہے ۔۔ ۔۔۔۔۔
تم ہاں تم بوڑھے رائے احمد خاں کھرل انگریز سامراج کے لیے لڑے تھے مذہب اور آزادی کے لیے ۔۔۔۔۔۔
حلال اور حرام کے لیے ، ظلم استحصال اور استبداد کے لیے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھ لو آج پنجاب میں کیا نہیں ؟
پنجاب نے تمہیں بھلا دیا تمہارے مزار پر پھول خشک پڑے ہیں کوئی ادھر کو آتا نہیں تمہارے دن کوئی چھٹی نہیں کوئی سرکاری سطح پر تقریب نہیں منائی جاتی
تم گمنام ہو اور تمہارا کردار گمنامی کا شکار ہو گیا ہے
دیکھو تو اج رائے سرفراز کھرل کا کردار پھل پھول رہا ہے ، لوگ مزاحمت کو بھول کر مصلحتوں کے شکار ہو گئے وہ فلسفہ حریت و حمیت کو اب کیا جانیں ۔۔ ۔۔۔۔۔۔
رائے احمد خاں کھرل
انگریز سامراج اور اسکا نظام زندہ ہے ، ۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔!!!!!
میں اور گمنام سپاہی یک زبان بولے
رائے احمد خاں کھرل پنجاب کی پگ بوڑھا رائے احمد خاں کھرل یہ سنتے مسکرایا اور بولا اٹھا ۔۔۔۔۔۔
سرفراز کھرل زندہ ہے ، پنجاب سرفراز کھرل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں