ہم نے لوگوں کو بھیک مانگنا سکھایا ہے۔ محنت کرنا نہیں سکھایا، آٹے ،دال ،چاول راشن کے لئے قطاریں بنانا سکھادیا ۔ ان کے لئے روز گار مہیا نہیں کرسکے۔ ہمیں اپنے گرد ایسے ہی لوگ اچھے لگتے ہیں ۔ ہاتھ پھیلائے،مانگتے،دس دس روپے کے لئے گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے، چھوٹے بچوں کے میلے کچیلے ہاتھوں میں وائپرز،پھول ، رنگین پنسلیں اور تسبیحات دیکھتے۔
ہمیں یہ منظر بہت دلفریب لگتے ہیں ۔ جب بیس تیس یا اسی پچاسی لاکھ کی گاڑی میں بیٹھ کر ہم سگنل پر پہنچتے ہیں ۔ اے سی کی ٹھنڈک میں اپنا آپ کسی شہنشاہ سے کم نہیں لگتا تو ایسے میں یہ ساری غریب مخلوق درباری لگتی ہے۔ ہمارے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی، منت سماجت کرتی، جب یہ ہماری لگژری گاڑیوں کے پیچھے منمناتے ہوئے دوڑتے ہیں ہمارا قد مزید اونچا ہوجاتا ہے۔
یقین کریں ۔ یہ لوگ ہمارے پیدا کردہ ہیں۔ یہ پیشہ ور بھکاری،کروڑوں کا بزنس کرنے والے گداگر ہمارے ایجاد کردہ ہیں۔
ہم نے انہیں اپنی اخلاقی کم مائیگی اور احساس کمتری چھپانے کے لئے مارکیٹ کیا ہے۔
کچھ دہائیاں پیچھے چلے جائیں ۔ تب یہ لاکھوں کے حساب سے کھیپ برآمد نہیں ہوئی تھی۔ لوگ محنت پر یقین رکھتے تھے۔ ہاتھ سے کمانے کو ترجیح دیتے تھے۔ گھر کے مرد بےکار بیٹھنا باعث ننگ سمجھتے تھے لیکن پھر ہمیں “بھیک “دینے کی عادت پڑ گئی۔
ہمارے حکمرانوں سے لے کر چھابڑی لگانے والا تک مانگ رہا ہے۔ ہمیں کشکول کی لت لگ گئی ۔ ہم نے سوچا یہ تو بڑا دلچسپ کام ہے۔ بیٹھے بٹھائے کاروبار چل رہا ہے۔ ہماری اندرونی غربت کی حس تسکین پارہی ہے ۔
اقبال کی خودی گئی بھاڑ میں، مانگنے میں جو لذت ہے وہ عزت نفس میں کہاں،
ہم نے اجتماعی طور پرمانگنا شروع کردیا۔
یقین کریں۔۔ ہم وہ قوم ہیں جس کے پیر کامل صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس ایک لکڑہارا آیاتو اسے یہ نہیں کہا جاؤ جاکر بھیک مانگ لو۔ چند روپوں سے کلہاڑا منگواکر دیا۔ اس کا دستہ اپنے مبارک ہاتھوں سے لگایا اور اسے کہا ”جاؤ۔۔محنت کرکے کماؤ”
لیکن ہم کیوں کمائیں بھئی، ہمارے پاس اس کا سیدھا سا جواب ہے روزگار نہیں ہے۔ روز گار بھی ہم نے خود پیدا کرنا ہے لیکن نہیں کرنا چاہتے۔ میں سمجھتی ہوں یہ جو ہم ٹنوں کے حساب سے لنگر خانے چلارہے ہیں۔ ویلفئر ٹرسٹ اور ادارے کھول کر بیٹھے ہیں۔
ہم یہاں روزگار کا آپشن کیوں نہیں دیتے۔ ہم یہ کیوں نہیں کہتے کہ دو وقت کی روٹی روزانہ کھانی ہے تو یہ ہنر سیکھیں۔ انہیں پابند نہیں کرتے کہ مفت روٹی نہیں توڑنی کام بھی ساتھ سیکھنا ہے۔ مگر نہیں۔۔
ہمیں یہ بھی وارے نہیں آتا۔ ہم نے بھیک ہی دینی ہے۔ دس روپے دے کر خالی خولی دعائیں سمیٹنی ہیں۔ ہمارے خیراتی ادارے بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ انہیں بھی منوں کے حساب سے دیگیں پکوا کر اشتہار لگانے میں لطف آتا ہے۔ وہ مدد کے نام پر اس قوم کو اپاہج ،معذور اور بیساکھیوں کا عادی بنارہے ہیں۔
یقین کریں وہ وقت دور نہیں جب یہ قطاریں بڑھتی جائیں گی ۔ یہ آندھی کے غبار کی طرح ہمیں دبوچ لیں گی۔
یہ وہ قطاریں ہیں جو اپنے حق کے لئے سڑک پر نہیں آسکتیں لیکن آٹے کے ایک کنستر اور بریانی کی ایک پلیٹ کے لئے اپنا آپ پیروں تلے روند سکتی ہیں ۔
یہ قطاریں ہم نے بنائی ہیں ہمیں ہی ختم کرنا ہوں گی۔ورنہ جنازوں کے لیے بننے لگیں گی۔
