محمد عدنان جاوید
کھانا کھا کر بیٹھا بار بار وہی بات ذہن میں گردش کرنے لگی ہماری دعائیں اب کیوں قبول نہیں ہوتی؟ اچانک بجلی چلی گئی میں تازہ ہوا کھانے اور چہل قدمی کے لیے گھر سے نکلا. اڈے کی جانب جانے لگا سامنے سے کتا آتا دکھائی دیا. جس کا خوف محلے میں پھیلا ہوا تھا. دو تین لوگوں کو اپنا شکار بنا چکا تھا. اپنی طرف آتا دیکھ کر دل زور سے دھڑکنے لگا ساتھ زبان سے جاری ہوا یااللہ اس سے حفاظت فرما. تیز قدموں سے گلی کی نکڑ پر پہنچ کر پیچھے دیکھا آنکھوں سے اوجھل ہو چکا تھا.
میرے ذہن میں جواب آنا شروع ہو گئے کہ دعا قبول کیوں نہیں ہوتی مانگ کر ہم انتظار نہیں کرتے. نا ہم صدق دل سے گریا زاری کر کے دعا مانگتے ہیں.
حجاج بن یوسف کعبہ کا طواف کر رہا تھا اس نے ایک نابینا شخص کو دیکھا جو دعا کر رہا تھا رب کعبہ مجھے بینائی عطا فرما. اس کے مانگنے میں نہ توجہ تھی نہ اخلاص فقط زبان سے الفاظ نکال رہا تھا. حجاج رکا اس کو کہا میں حجاج ہو نام سن کر وہ کانپ اٹھا لگتا ہے اب جان کی امان نہیں. میں طواف کر رہا ہو میرے چکر مکمل ہونے تک اگر تیری بینائی واپس نہ آئی تو سر تن سے جدا کر دو گا اتنا کہہ کر چل پڑا.
اب لگا رونے گڑ گڑانے یااللہ بینائی عطا فرما، پہلے
آنکھیں نہیں تھی اب تو جان جاتی بھی محسوس ہونے لگی. رو رو کر مانگے لگا
حجاج آخری چکر لگا رہا تھا اس کی حالت بھی دیکھ رہا تھا. اس کی طرف بڑھا تو رحمت الہی جوش میں آئی اس کو دنیا کی رنگینیاں نظر آنے لگی فورا سجدہ بجا لایا.
حجاج قریب آ کر مسکرانے لگا بچ گیا ورنہ تم کو میرا علم ہے. جانتے ہو میں نے ایسا کیوں کہا؟
دعا مانگتے وقت تم بس خانہ پوری کر رہے تھے تمہارا دل و دماغ کہیں اور ہی تھا. جب جان کے لالے پڑے پھر یکسو ہو کر دل سے مانگنے لگا. دیکھو پھر دعا قبول بھی ہوئی.
ہم سبھی مشکلات، بے روزگاری، بیماری کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں. کبھی چھوٹے بچے کو دیکھنا وہ کس طرح کھانے یا کھلونے کی خاطر طرح طرح کے حیلے کرتے ہیں آپ کو اپنی باتوں سے خوش کرنے آپ کا دل جیتنے کی کوشش کرتے ہیں. بعض دفعہ سچ یا جھوٹ کا رونا رو کر چند آنسوں بہا کر اپنے مطالبے منوانے میں کافی حد تک کامیاب ہو جاتے ہیں. ایک ہم بڑے ہے جو بظاہر خود کو سمجھدار سمجھتے ہیں. رب کو منانا ہی ہی نہیں آتا.
ہمارا ذہن ہے کہ دعا صرف بزرگوں ہی قبول ہوتی ہے.
اس کے لیے مصلہ بچھا کر بیٹھنا پڑتا ہے. آپ چلتے پھرتے وقت بھی مانگ سکتے ہیں. کسی کے پاس اچھی چیز دیکھ کر یا کسی نیک سیرت کو دیکھیں تو دل میں دعا مانگیں. اللہ پاک نے ہر دن میں ایک گھڑی ایسی بنائی ہے جس میں دعا قبول کرتے ہیں مگر ہمیں اس گھڑی کا علم نہیں جانتے ہے کیوں؟ اللہ پاک چاہتے ہے کہ ہر وقت بس مجھ سے التجاء کریں. اکثر ہم میں سے نماز پڑھ کر مسجد سے یوں بھاگتے ہے جیسے قیدی قید سے. ہم اس ہستی کے گھر مہمان ہوتے ہے اس وقت اس کو رو کر اپنی حاجت کو بتلائیں. دعا اس طریقے سے مانگیں اس ہستی کو ہمارے حال پر رحم آئے. بس مایوسی چھوڑ دیں. کبھی دعا جلد قبول ہوتی ہے کبھی تاخیر سے. فقیر کا کام ہے مانگتے رہنا. مالک کا کام ہے دینا کونسا وقت ہمارے لیے بہتر ہے وہ ہستی بخوبی جانتی ہے. جن دعاؤں کا صلہ دنیا میں نہیں ان کا صلہ بروز حشر ملے گا. غیب کے لیے بھی دعا مانگیں کیونکہ غیب کی دعا غیب کے لیے قبول ہوتی ہے