جس معاشرے میں ظلم اور جبر حد سے بڑھ جاۓ تو لوگوں کی اکثریت ظالم کی طرفدار بن جاتی ہے، اس وجہ سے نہیں کہ انہیں ظلم پسند ہوتا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اکثریت بزدل ہوتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اس طرح سے ظالم کے ظلم سے اسے نجات مل جاۓ گی جبکہ ظلم کرنے والے تو ایسے وحشی درندے بن چکے ہوتے ہیں جن کو مظلوموں کے لہو کی چاٹ لگ چکی ہوتی ہے اور جب بھی ان کی پیاس بھڑکتی ہے تو پھر جو بھی سامنے آ جاۓ ان کی دستبرد کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسے بزدل معاشرے میں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والا مظلوموں کا ہیرو نہیں ہوتا بلکہ ان کی لعن طعن اور طنز و نفرت کا شکار ہو جاتا ہے۔ لوگ ظالم کو دل میں تو برا سمجھتے ہیں مگر عملی طور پر نہ خود ظلم کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتے ہیں اور نہ ہی بغاوت کرنے والے کی حمایت کرتے ہیں۔ ظلم سہنا دراصل ظالم کی طرف داری کرنے کے مترادف ہے۔ وہی معاشرے زندہ اور سربلند رہتے ہیں جو اپنی انا، خودی، غیرت اور عزت کی حفاظت کرتے ہیں۔ بزدلوں کی نہ تو اہمیت ہوتی ہے اور نہ ہی دنیا میں ان کی کوٸی عزت ہوتی ہے۔ بزدلی کو مصلحت کا نام دینے والے کبھی عزت دار نہیں کہلوا سکتے۔
ہم نے اکثر مشاہدہ کیا ہے کہ اشیاۓ ضروریہ کی مصنوعی قلت کر کے مہنگاٸی کرنے والوں کے خلاف کبھی کوٸی مٶثر احتجاج نہیں ہو پاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن سے احتجاج کا خطرہ ہوتا ہے انہیں سستے داموں چپکے سے نواز دیا جاتا ہے۔ دیکھا جاۓ تو ہم میں سے ایک بڑی تعداد پرلے درجے کی منافق ہے۔ ظلم سے نفرت مگر ظالم کی طرفداری کرتی ہے۔
ایک گاؤں میں ڈاکو داخل ہوئے اور وہاں کی تمام عورتوں کی عصمت دری کر دی۔ مگر ایک خاتون ایسی تھی کہ جب اس کے گھر میں ڈاکو داخل ہوا تو اس نے اس ڈاکو کو قتل کر دیا اور سر کاٹ دیا… واردات کے بعد جب تمام ڈاکو اس گاؤں سے چلے گئے تو تمام عورتیں اپنے پھٹے ہوئے کپڑوں سمیت گھروں سے نکل آئیں اور روتے ہوئے ایک دوسرے کو روداد بیان کرنے لگیں…. اتنے میں وہ بہادر خاتون اپنے گھر سے باہر نکلی, عورتوں نے دیکھا کہ اس کے گھر میں داخل ہونے والے ڈاکو کا سر اس نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے اور نہایت غیرت و خودداری کے ساتھ وہ ان کی طرف آنے لگی… اس خاتون نے بلند آواز سے کہا کہ کیا تم نے سوچ لیا تھا کہ وہ مجھے مارے بغیر میری عزت تار تار کر سکتا تھا..؟
گاؤں کی عورتوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور فیصلہ کیا کہ اسے قتل کر دیا جائے تاکہ ان کی عزت بچی رہے اور ان کے شوہر کام سے واپس آنے پر ان سے یہ نہ پوچھیں کہ تم نے اس کی طرح مزاحمت کیوں نہیں کی؟؟
پھر انہوں نے اس بہادر خاتون پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا ۔
انہوں نے ذلت کو زندہ رکھنے کے لئے عزت کا قتل کر دیا
یہی حال آج ہمارے معاشرے کے چور، حرام خور، جھوٹے اور کرپٹ لوگوں کا ہے۔وہ ہر عزت دار, خوددار شخص کو مارتے ہیں, غریب اور سفید پوش کو حقیر جانتے ہیں اور استحصال کرتے ہیں تاکہ وہ ان کی کرپشن, جھوٹ, چوری اور حرام خوری کے خلاف بات نہ کر سکیں.
اصل میں یہ لوگ اپنی عزتیں گنوا چکے ہیں اور عزت داروں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔
آج دوسروں کو انصاف دینے والے محترم جج صاحب کی بیوی اپنی کمسن ملازمہ کو تشدد کر کے اس کی ٹانگ اور بازو توڑ دیتی ہے۔ اس بے چاری کے زخی سر میں کیڑے پڑ جاتے ہیں۔ وہ تڑپ تڑپ کر ہسپتال میں جان دے دیتی ہے مگر سول سوساٸٹی خاموش تماشاٸی بنی منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھی ہے۔ موم بتیاں جلا کر انسانی حقوق کا علم بلند کرنے والی آنٹیاں کسی گہرے کنوٸیں میں اتری ہوٸی ہیں۔ اسکینڈلوں کے متلاشی میڈیا کے اس قتل پر بات کرتے ہوٸے پر جلتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے لمبی تان کر سو رہے ہیں اور غریبوں کے ہمدرد سیاستدان اس معاملے میں گونگے بہرے اور اندھے بنے ہوٸے ہیں۔ گویا جج صاحب کی سرکار میں بندہ و صاحب و غنی و لبرلز سبھی ایک پیج پر ہیں کہ طاقت کو سلام ہے۔
یونیورسٹیوں میں حوّا کی بیٹیاں لُٹ رہی ہیں۔ سمجھوتہ نہ کرنے والی عزت دار بیٹیاں ”مبینہ خودکشیاں“ کر رہی ہیں مگر ان مظلوم بیٹیوں کی داد رسی کی بجاٸے طاقتور ہاتھ ظالموں کو بچانے کے لٸے حرکت میں آ گٸے ہیں۔سیاست، طاقت اور اقتدار مل کر درندوں کے پشت پناہ بن گٸے ہیں۔
ہمارے یہاں کا ہر دستور نرالا اور ہر چلن انوکھا ہے۔ ایماندار سرکاری ملازم ہو تو کھڈے لائن, تاجر ہو تو دیوالیہ,عزت دارہو تو کردار کشی، کسی لیڈر کی اقربا پروری اور ناجوازی کو سامنے لایا جاۓ تو حق اور سچ سامنے لانے والے کے خلاف اس کرپٹ لیڈر کے پیروکاروں کا جتھا مہم جوٸی شروع کر دیتا ہے۔
آپ جب کہیں ایسے لوگ دیکھیں جو چور، جھوٹے، حرام خور، فراڈیٸے اورکرپٹ کا ساتھ دے رہے ہیں تو سمجھ جائیں کہ یہ انہی عورتوں کے پیروکار ہیں جنہوں نے اپنی جھوٹی عزت کی خاطر باحیا اور غیرت مند عورت کی زندگی کا خاتمہ کر دیا تھا۔
