91

یوم اساتذہ/مصنفہ/نمرہ امین ( لاہور)

ہمارے سب سے پہلے استاد ہی ہمارے والدین ہوتے ہیں۔ انسان جب بولنا شروع کرتا ہے تو لفظ ماما اور پاپا بولتا ہے۔ بچے کی پہلی درسگاہ ہی اس کا گھر اور اس کے والدین کی دی ہوئی تعلیم ہوتی ہے جس سے وہ ایک با شعور انسان بننے کی شروعات کرتا ہے اور جب وہ تعلیم حاصل کرنے اداروں میں جاتا ہے تو اس کو استاد کے روپ میں ایک ایسا قیمتی انمول ہیرا ملتا ہے جس کے بتائے، سیکھائے، ہنر اور تعلیم کی بدولت ایک انسان اعلیٰ درجہ کے افسران کے عہدے پر اپنی صلاحیتیوں کو منواتا ہے۔ ایک استاد اپنے شاگرد کو اتنا با شعور، ہنر مند اور مہذب و تہذیب سیکھا دیتا ہے کہ وہ ہر معاشرے میں خود کو ڈھالنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ ایک انسان استاد کے بغیر نا مکمل اور ادھورا ہے۔ جیسے تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ویسے ہی ایک انسان استاد کے بغیر کسی قابل نہیں بن سکتا نہ ہی کسی مقام تک پہنچ سکتا ہے۔ جو انسان اپنی زندگی میں استاد کے سخت رویوں اور مار کو برداشت کر کے علم سیکھتا ہے وہی کامیاب اعلیٰ افسر کے مقام تک پہنچتا ہے۔ استاد کی عزت، قدر ایسے ہے جیسے ہم اپنے والدین کی کرتے ہیں کیونکہ ہمارے استاد ہمارے روحانی والدین ہوتے ہیں جو ہمیں علم کی آگاہی سے روشناس کرواتے ہیں، زمانے کی سختیاں برداشت کرنے والا بناتے ہیں، صبر و استقامت سے ہر کام کرنا سیکھاتے ہیں۔ غلط، صحیح میں فرق اور دین و دنیا کے مطابق تعلیم دے کر ہمارے روشن مستقبل کو سنوارتے ہیں۔ یہ وہ ہستی ہے جو انسان کو اندھیروں سے نکال کر روشنیوں کی راہ دیکھا کر اس کا روشن مستقبل بناتے ہیں بنا کسی مفاد و مطلب پرست کے اور خود پر فخر کرتے ہیں اپنے شاگرد کی ترقی پر بنا کسی حسد کے۔
استاد کا رتبہ اتنا عظیم ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو تعلیم کی روشنی دینے کے لیے سختیوں، مشکلوں، پریشانیوں اور بہت سے ایسے حالات سے گزر کر خود کو جلاتا ہے اور پھر اپنے شاگردوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرتا ہے۔
استاد صرف وہ نہیں ہوتا جو ہمیں تعلیمی شعور دے، ہر وہ انسان استاد کا درجہ رکھتا ہے جو کسی بھی کام کی صلاحیت کو اپنے شاگردوں کو سیکھا سکے ان کو معاشرے میں ترقی کے قابل بنا سکے۔ ہر ہنر کو سیکھنے کے لیے استاد کے پاس جانا ہڑتا ہے ایک استاد کی ہمیں تاحیات ضرورت رہتی ہی ہے کچھ بھی سیکھنے کے لیے۔
سب سے بڑی ہماری استاد ہماری زندگی ہے جس کی وجہ سے ہمیں وہ سب سیکھنے کو ملا جو ہمیں کتابیں نہیں سیکھا پائی۔ زندگی نے ہمیں اپنے، پرائے کی پہچان کروائی، ہمیں جینا سیکھایا، اللہ پر یقین کرنا، دعائیں مانگنا سیکھایا، زندگی کو دین کے مطابق گزارنا اور اس پر چلنا سیکھایا۔ کیونکہ یہ زندگی ایک استاد سے زیادہ سخت ہوتی ہے۔ “استاد تو سبق دے کر امتحان لیتا ہے جبکہ زندگی امتحان لے کر سبق دیتی ہے۔” یہ زندگی ایک ہی بار ملتی ہے اور سبق قیامت تک کے سیکھا دیتی ہے جو انسان کو دنیا و آخرت میں کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں