کیا ہم غلام ہیں ؟؟
جی ہاں! بالکل ہم غلام تھے ، غلام ہیں اور اگر ہم نے خود کو بدلنے کی کوشش نہ کی تو غلام ہی رہیں گے !!
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو پہلے ہم انگریز کے غلام تھے اور دور حاضر میں انگریز کے چلے جانے کے بعد مقامی
” انگریزوں” کی غلامی میں چلے گئے ۔۔۔ بالکل ایسے ہی جیسے کہ کوئی جاگیر یا سرداری پہلے کے بعد دوسرے کے قبضے میں چلی جاتی ہے ، بعینہ ہم بھی اصل انگریز کے بعد مقامی انگریز کی غلامی میں چلے گئے ۔۔۔۔
پھر ہوا یہ کہ ہمیں بتایا گیا کہ ہم آ زاد ہیں اور آ زادی حاصل کرنے کی داستانیں ہمارے دماغ میں نقش کر دی گئیں لیکن یہ نہ بتایا کہ آ زادی دلانے والے کے ساتھ کیا ہوا ؟ اس ایک شخص کے قریبی ساتھیوں اور اس کی ہمشیرہ کو راستے سے کیوں ہٹایا گیا ؟ جس مقصد کے لیے آ زادی حاصل کی اس کا کیا ہوا ؟
اس کے برعکس ہمارے ذہن کو جکڑ لیا گیا اور آ ہستہ آ ہستہ ہمیں ذہنی غلامی میں دھکیل دیا گیا۔۔۔
اور ہم ہنسی خوشی اس غلامی میں زندگی بسر کرتے گئے ۔۔۔ ہمارا نظام تعلیم انگریزی قرار پایا اور ترقی کا معیار بھی انگریزی ۔۔۔ فر فر انگریزی بولنے والے کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔۔۔ جو قومی زبان کے فروغ کی بات کرتا اسے بنیاد پرست قرار دیا جاتا۔۔۔ہمارا تمام کا تمام دفتری نظام انگریزی میں اور حد تو یہ کہ عدالتی نظام ، حتیٰ کہ قوانین بھی انگریز کے دور کے ہی رہے ۔۔۔ اسی قانون میں وقفے وقفے سے ترامیم کر کر کے اسے اسلامی بنانے کی ناکام کوشش بھی کی گئی ۔۔۔
ہمارے ذہنوں کو اس حد تک قابو کر لیا گیا کہ ہم اپنی حق تلفی کو ہی اپنا حق سمجھ بیٹھے ۔۔۔
ایک مخصوص طبقے کی حکمرانی سالہا سال ہم پر مسلط رہی ، اس طبقے کے متعلق کئی ایک کہانیاں سامنے آ ئیں ، کبھی ثبوت بھی پیش کر دیے گئے ۔۔ کبھی مقدمے بھی چلے ۔۔۔ لیکن ہم نے اپنی آ نکھیں بند رکھیں۔۔۔۔
وقت گزرتا گیا کہ ایک شخص نے آ کر اس طبقے کو حقیقی معنوں میں شدید قسم کی ٹکر دی کہ اس ٹکر سے پورا طبقہ ہی ہل کر رہ گیا۔۔۔۔۔
پھر کہیں جا کر ہماری بند آ نکھیں روشنی میں چندھیا گئیں اور رفتہ رفتہ ہمیں سب کچھ صاف نظر آ نے لگا۔۔۔۔
پھر ہمارے ذہن پر سے قفل ہٹنے لگے اور ہم نے اپنے آ پ کو حقیقی طور پر آ زاد کرنے کا تہیہ کیا ۔۔
وقت گزرا اور زخم خوردہ طبقے نے زخمی شیر کی مانند مار دھاڑ شروع کر دی ۔۔۔۔ کبھی کسی کو غائب ، کبھی کسی کو جیل میں، کبھی کسی پر دباؤ ۔۔۔۔۔۔
لیکن جب ہم نے اس طبقے کی غلامی سے انکار کر دیا تو اس نے غلامی کا انکار کرنے والے کو ہی راستے سے ہٹانے کی کوشش کی اور پھر پتا ہے کیا ہوا ؟
ہم لوگوں نے اپنی ازلی بے حسی سے ثابت کر دیا کہ واقعی ہم غلام ہی ہیں !

کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
میں تنہا ساون بِتا چکا ہوں🍁
میں سارے ارمان جلا چکا ہوں
جو شعلے بھڑکتے تھے خواہشوں کے
وہ آنسوؤں سے بجھا چکا ہوں😢
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
بغیر اسکے اداس ہوں میں
بدلتی رت کا قیاس ہوں میں
بجھا دے اپنی محبتوں سے تو
سلگتی صدیوں کی پیاس ہوں میں🥀
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
وہ جذبے میرے کچل گیا ہے
وفا کے سانچے میں ڈھل گیا ہے
نہ بدلے موسم بھی اتنی جلدی
وہ جتنی جلدی بدل گیا ہے💔
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
میں چاک دامن کو سی رہا ہوں
بہت ہی مشکل سے جی رہا ہوں
دیا جو نفرت کا زہر اس نے
سمجھ کے وہ امرت پی رہا ہوں🖤
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
فصیل نفرت گرا رہا ہوں
گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
وہ اپنے وعدوں سے پھر گیا ہے
میں اپنے وعدے نبھا رہا ہوں❤️
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
یہ کس الجھن میں جی رہا ہوں
میں اپنے سائے سے ڈر رہا ہوں
جو ہو سکے تو سمیٹ لے وہ مجھ کو
میں تنکا تنکا بکھر رہا ہوں🍁
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
نہ دل میں کوئی ملال رکھے
وہ ہمیشہ اپنا خیال رکھے
وہ اپنے سارے غم مجھ کو دے دے
تمام خوشیاں وہ سنبھال رکھے
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا..!